Posts

Showing posts from June, 2020

نظم خلیل اللہ فاروقی

خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں

تم کیسی محبت کرتے ہو

بہت حسین میری زندگی ہے

سویرے آنا عشا کی نماز ہو جانا

بھر بھی جائیں گے اگر سینہء صد چاک کے زخم

جنگل ہماری آنکھ برابر نہیں رہے

چلے بھی آؤ کہ حجت تمام ہو چکی ہے

بدخشاں میں پڑیا ہے شور تیرے لعل رنگیں کا

کس ہنر کے مظاہرے میں ہو

سفر میں ہی چھپی ان کی خوشی ہے

میں کسی جواز کے حصار میں نہ تھا

اکیلی چل رہی ہوں جل رہی ہوں تم نہیں آنا

اچھی کہی کہ مجھ سے بیاں مدعا نہ ہو

گرد کوزوں سے ہٹانے کے لیے آتا ہے

جیہڑا ویہر کھلوتا سی جگ اگے

چلو آؤ بہانے سے دلوں کا میل دھو ڈالیں

تو پاس بھی ہو تو دل بے قرار اپنا ہے

نظر اٹھی جدھر بھی ہم نے ان کو جلوہ گر دیکھا

مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں​

بہت مشکل ہے اس کے ساتھ کار دلبری کرنا

دیر سے اہلیان جاگے ہیں

دیار حسن میں تجدید عاشقی کے لیے

ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ سے ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﮩﺘﺎﺏ ﺭﮨﺎ

کھینچ کر عکس فسانے سے الگ ہو جاؤ

اے کہ ہے ختم تری ذات پہ والا نسبی

وہ کیوں نہ روٹھتا میں نے بھی تو خطا کی تھی

کجھ ایانے کجھ سیانے حرف نیں

بکھرے ہوئے اس شہر میں چہرے بھی بہت تھے

غم حیات ترے نین کیا رسیلے ہیں

عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے

سب پھول ترے زخم ہمارے ہیں کم و بیش

پوچھا جو کسی نے کہ ہیں خاتون جناں کون

بہت دنوں سے نہیں اپنے درمیاں وہ شخص

آخری صف میں بھی مشکل سے کہیں آتے ہیں

اس کھوج میں جلتا ہے بہت خون ہمارا

اس طرف ہم نے کبھی دھیان نہیں کرنا ہے

کئی دنوں سے مروت نہیں ہوئی مجھ سے

تم نئے تو نہيں الزام لگانے والے

تجھے تو آج بھی ہم بے شمار چاہتے ہیں