Posts

Showing posts from March, 2018

لذت ہجر لے گئی وصل کے خواب لے گئی

جب ضبط کروں دل سے نکلتی ہے فغاں اور

ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے

گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیر 

یہ کیا کہ سب سے بیاں دل کی حالتیں کرنی

مرے خلوص کی گہرائی سے نہیں ملتے

ﺟﮭﻠﮏ ﭘﺮﺩﮮ ﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﺭﮦ ﺭﮦ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﻼﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﺻﻞ

پھول تو پھول یہاں خار بدل جاتے ہیں 

کوئی تردید کا صدمہ ہے نہ اثبات کا دکھ

بے قراری سی بے قراری ہے

کون کسی کا یار ہے سائیں

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں 

اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے

یونہی افزائش وحشت کےجو ساماں ہوں گے

صبا کا نرم سا جھونکا بھی تازیانہ ہوا

نِگاہِ شوق سے کب تک مُقابلہ کرتے

مری آنکھوں سے ہجرت کا وہ منظر کیوں نہیں جاتا 

منتخب اشعار خالد سجاد

لو مدینے کی تجلی سے لگائے ہوئے ہیں

نعت شریف ، تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا

تِرے حرف و لب کا طلسم تھا مِری آب و تاب میں رہ گیا

جھوٹی تسلیوں پہ شب غم بسر ہوئی

میں ملوں گا اپنے وجود سے اسی سبز پیڑ کی چھاؤں میں 

مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب الٹا

رنگ اور نور کی تمثیل سے ہو گا کہ نہیں

خاموشی کی قرأت کر نے والے لوگ 

ڈر لگتا ہے ٹوٹ نہ جائے سپنوں والی باڑ

نیند بیچی جا رہی ہے کاروبار خواب ہے

اکیلے ہیں وہ اور جھنجھلا رہے ہیں

جھنجھلائے ہیں، لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں 

آئینہ خانے کو زنگار نگل جاتا ہے 

غم سبھی دل سے لگائے اور اٹھ کر چل دیے 

بولنے میں ذرا بلند ہوں میں

اچھا ہے وہ بیمار جو اچھا نہیں ہوتا 

کوئی کیسا ہمسفر ہے، یہ ابھی سے مت بتاؤ

فکر غربت ہے نہ اندیشۂ تنہائی ہے 

کوششیں سجنے سنورنے کی ہیں بے کار سبھی

آنسو لے کر آیا ہوں الفاظ نہیں

ہم کو محبتوں میں خسارا نہیں ہوا 

کیا کہیں اور دل کے بارے میں 

زباں کرتی ہے دل کی ترجمانی دیکھتے جاؤ

نظم امجد اسلام امجد

امجد اسلام امجد کی نظم

اگر شطرنج کھیلوں گا تو دن بےکار جائیں گے 

گلزار کی خوبصورت نظم

وہ کبھی مِل جائیں تو کیا کیجئے

جیسے دیکھا ھے، دکھایا بھی نہیں جا سکتا

اے دشت احترام ! یہاں دل سے آئے ہیں

میری گردن نہ جھکی ، تن سے جُدا بھی نہ ہوئی 

سخن کروں گا میں تجھ سے،یہ کائنات ہٹا

رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے

بات کرے تو کھل اٹھوں، لمس ملے تو جل اٹھوں

دھوکے سے چالبازی سے چھل سے فریب سے

پنجابی نظم

دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو

مرتے دم نام ترا لب کے جو آ جائے قریب 

ڈھلکے ڈھلکے آنسو ڈھلکے 

یاد کرنا ہر گھڑی اس یار کا

جہالتوں کے اندھيرے مٹا کے لوٹ آیا

اپنے ہاتھوں سے خود اپنے درد کا درماں لکھا