مری آنکھوں سے ہجرت کا وہ منظر کیوں نہیں جاتا 

مری آنکھوں سے ہجرت کا وہ منظر کیوں نہیں جاتا 
 بچھڑ کر بھی بچھڑ جانے کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا
اگر یہ زخم بھرنا ہے تو پھر بھر کیوں نہیں جاتا 
 اگر یہ جان لیوا ہے تو میں مر کیوں نہیں جاتا
اگر تو دوست ہے تو پھر یہ خنجر کیوں ہے ہاتھوں میں 
 اگر دشمن ہے تو آخر مرا سر کیوں نہیں جاتا
بتاؤں کس حوالے سے انہیں بیراگ کا مطلب 
 جو تارے پوچھتے ہیں رات کو گھر کیوں نہیں جاتا
ذرا فرصت ملے قسمت کی چوسر سے تو سوچوں گا 
 کہ خواہش اور حاصل کا یہ انتر کیوں نہیں جاتا
مرے سارے رقیبوں نے زمینیں چھوڑ دیں کب کی 
 مگر اشعار سے میرے وہ تیور کیوں نہیں جاتا
مجھے بے چین کرتے ہیں یہ دل کے ان گنت دھبے 
 جو جاتا ہے وہ یادوں کو مٹا کر کیوں نہیں جاتا
پربدھ سوربھ

Comments