Posts

Showing posts from July, 2020

پرانے دوستوں سے اب مروت چھوڑ دی ہم نے

اب کیسے رفو پیراہن ہو اس آوارہ دیوانے کا

وصل کی نوبت نہ آئی عید پر

اللہ رے اس چشمِ عنایات کا جادو

وہ ہنستی آنکھیں حسیں تبسم دمکتا چہرہ کتاب جیسا

میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں

ترے بغیر ترے ساتھ ایک جیسے تھے

یہ عمر یہ حسن اور ناز و ادا ا س پر یہ سنگار اللہ اللہ​

جو مشت خاک ہو اس خاکداں کی بات کرو

کلیوں کا تبسم ہو کہ تم ہو کہ صبا ہو

چھیڑ کر تذکرۂ دور جوانی رویا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا

وطن نصیب کہاں اپنی قسمتیں ہوں گی

لدی ہے پھولوں سے پھر بھی اداس لگتی ہے

نئیں کئی تا سنے احوال میری دل فگاری کا

وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے

اندروں سے مکالمہ کیجے

سنگ کی طرح سماعت پہ ہنسی لگتی ہے

رہتے ہیں بدن دھوپ سے دوچار ہمارے

انجام محبت اے توبہ آغاز محبت کیا کہیے

تو طے ہوا نا کہ جب بھی لکھنا رتوں کے سارے عذاب لکھنا

کون اس راہ سے گزرتا ہے

نظیر اکبر آبادی منتخب اشعار

دل پا کے اس کی زلف میں آرام رہ گیا

جنت کی آرزو ہے نہ حوروں کی چاہ ہے

پسینے پسینے ہوئے جا رہے ہو

تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں

کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں

ایسے الفت کا ڈھب سکھایا گیا

نہ سماعتوں میں تپش گھلے نہ نظر کو وقف عذاب کر

ستارہ وار ترے غم میں جل بجھا ہوں میں