Posts

Showing posts from February, 2020

چلی ہے شہر میں اب کے ہوا ترک تعلق کی

ترے ذوق نے وہ ثمر مری تہی ڈالیوں پہ لگا دیا

اچھے خاصے دکھتے ہو بیماری میں

تیزاب کی آمیزش یا زہر ہے پانی میں

پھر صبح کی ہوا میں جی کو ملال آئے

غیروں سے داد جور و جفا لی گئی تو کیا

تیرے بعد جانے یہ کیا ہوا ہرے آسماں کو ترس گئے

سحاب تھا کہ ستارہ گریز پا ہی لگا

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو

اس موسم کا بیج

خود سے ملتی نہیں نجات ہمیں

وہی ہوا نا

ہجوم رنگ ہے میری ملول آنکھوں میں

آسماں کیا مِری زمیں بھی نہیں

جنگل کو رو چکے چلو دریا کا غم کریں

تعلق جوڑ لیتا ہے نبھانا بھول جاتا ہے

دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے

شفق کی راکھ میں جل بجھ گیا ستارہ شام

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے

دیکھنا ہر صبح تجھ رخسار کا

مجاز ہی کو حقیقت بنائے جاتے ہیں

حریف کوئی نہیں دوسرا بڑا میرا

ویرانے کو وحشت زندہ رکھتی ہے

لوگ تھے جن کی آنکھوں میں اندیشہ کوئی نہ تھا

مسافتوں کے نئے بیج روز بوتے ہیں

دیار ہجر میں خود کو تو اکثر بھول جاتا ہوں

آئینہ دیکھتے ہی وہ دیوانہ ہو گیا

یہ کیسی تیرگی ہے کہ چبھتی ہے آنکھ میں

جیتے ہیں کیسے ایسی مثالوں کو دیکھیے

بخشے پھر اس نگاہ نے ارماں نئے نئے

رابطے رشتے نہ دیوار نہ در سے اس کے

یورش سخت جبر میں خواہش جام سی کبھی

پی لی تو کچھ پتا نہ چلا وہ سرور تھا

بے تعلق میں خود اپنے ہی گھرانے سے ہوا

نبھاتا کون ہے قول و قسم تم جانتے تھے

کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی

قربت نہیں تو شدت ہجراں ضرور ہو

لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں

جان دیتے ہی بنی عشق کے دیوانے سے

کسی کی یاد سے، ہم بے نیاز ہو جائیں

کیا کہیے کیا حجابِ حیا کا فسانہ تھا

شام سویرے یاد تمہاری ملنے آتی ہے

فرازؔ تم نے عبث شوق سے سجائے سخن

اہل دل فرمائیں کیا درکار ہے

جگ منیں دوجا نئیں ہے خوب رو تجھ سار کا