Posts

Showing posts from 2022

گزشتہ سال کے سکھ اب کے سال دے مولا

غم عاشقی سے کہہ دو رہ عام تک نہ پہنچے

وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے

چھڑا کر اپنا دامن پاک دامنی نہیں جاتی

شام ڈھلی اور پیڑ کا سایا بول پڑا

اب کہاں شہر میں وہ آئنہ تن تم جیسے

وہ سر خوشی دے کہ زندگی کو شباب سے بہرہ یاب کر دے

چھڑا کر اپنا دامن پاک دامنی نہیں جاتی

وہ مہتمم ہیں جہاں بھی گئے دیوانے

ان کی زلفوں میں خم رہ گئے ہیں

میں کہاں ہوں وہم وقیاس میں کہ میرا پتہ کوئی اور ہے

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں

مشیّت برطرف کیوں حالت انساں بتر ہوتی

یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

یہ چراغ بے نظر ہے یہ ستارہ بے زباں ہے

حیات راس نہ آئے اجل بہانہ کرے

کب تک کوئی طوفان اٹھانے کے نہیں ہم

ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی

شان درویش

تبدیلی

اب میسّر نہیں فرصت کے وہ دن رات ہمیں

ہم ڈھانپ تو لیں نین تیرے نین سے پہلے

تمہارے پاس آتے ہیں تو سانسیں بھیگ جاتی ہیں

آج کرسمس ہے

رہ طلب کے جو آداب بھول جاتے ہیں

مار ہی ڈال مجھے چشم ادا سے پہلے

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میری محبتوں سے پرے اور لوگ تھے

بچھڑ کے مجھ سے یہ مشغلہ اختیار کرنا

ہر مصیبت جو کھڑی کی انھی کے خو نے کی

اس شعلہ خو کی طرح بگڑتا نہیں کوئی

جب کبھی ان کی توجہ میں کمی پائی گئی

جان من

ابر میں برق کے گلزار دکھاتے اس کو

وہ اک خیال جو اس شوخ کی نگاہ میں تھا

کس انوکھے دشت میں ہو اے غزالان ختن

یہ مجھ سے کس طرح کی ضد دل برباد کرتا ہے

شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے

بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو

بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک

تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی

فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

آبلے مٹی پسینہ جیسے ویرانوں کا بوجھ

ہنگامہ بہ دوش آئے طوفاں بہ کنار آئے

آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

نظر کے بھید سب اہلِ نظر سمجھتے ہیں

کیا بتائیں عشق پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے

غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات

وطن میں واپسی

میں ازل کی شاخ سے ٹوٹا ہوا

رات کٹتی نظر نہیں آتی

تو مری جان گر نہیں آتی

بتا کیا ہے کیا تو نے میرے لیے

پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے

غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے

پتہ نہیں کیوں

تراشیدم

بھلے دنوں کی بات ہے

جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح

تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں

ہم یوسف زماں تھے ابھی کل کی بات ہے

اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے

رات آئی ہے بلاؤں سے رہائی دے گی

سلام در منقبت سیّدنا حضرت امام حسینؓ

رفتہ رفتہ وہ مری ہستی کا ساماں ہو گئے

وہ بے وفا ہے ہمیں یہ ملال تھوڑی ہے

غرور و کذب و ریا کل من علیھا فان

کچھ ایسے زخم ہیں جو عمر بھر رفو نہ ہوئے

بارش کی ہر اک بوند سے اس گیلے بدن پر

حالے پیار دی عادی کئے نی

چج دی جے کوئی گل سمجھاوے بسم اللہ

جیسے ہانڈی سے نکلتی ہوئی شوں ہے یوں ہے

ہم کیوں یہ مبتلائے بے تابی نظر ہیں

سنا ہے اس کو سخن کے اصول آتے ہیں

نور سرکار‏ نے ظلمت کا بھرم توڑ دیا

عشق کی عظمت نہ ہرگز جیتے جی کم کیجئے