بارش کی ہر اک بوند سے اس گیلے بدن پر

بارش کی ہر اک بوند سے اُس گِیلے بدن پر
 موتی سے چمکنے لگے چمکیلے بدن پر
پھر دشت میں پانی کے ذخائر ملے،پہلے
 اک پھول اُگایا گیا پتھریلے بدن پر
پہلی تھی ملاقات پریشان تھا میں بھی
 ملبوس کئی اس نے بھی تبدیلے بدن پر
اک لمس، مہیا کیے جاتا رہا سانسیں 
 اک آگ لپکتی رہی برفیلے بدن پر
پھر سے نہ کہیں مل کے بچھڑ جائے وہ تجھ سے
 اس بار کسی طرح اُسے سِی لے بدن پر
وہ ہونٹ وگرنہ تو نشاں چھوڑتے اپنا
 یہ زہر بھی زائل ہوا مجھ نِیلے بدن پر
ساحر یہ کہیں آخری داؤ نہ ہو اس کا
 کچھ اور گرفت اپنی بنا ڈھیلے بدن پر
جہانزیب ساحر

Comments