کچھ ایسے زخم ہیں جو عمر بھر رفو نہ ہوئے

کچھ ایسے زخم ہیں جو عمر بھر رفو نہ ہوئے
 تمہارے ساتھ بھی جینے میں سرخرو نہ ہوئے
یہ تیرے چاھنے والے ہیں کونے کونے میں
یہ تیرے چاھنے  والے بھی چارسو نہ ہوئے
بلندیوں پہ کبھی مستقل جگہ نہ ملی
 کبھو ہوئے ترے پیروں میں ہم کبھو نہ ہوئے
میں ان کو ساتھ لگاتا ہوں اور روتا ہوں
وہ لوگ جو ترا موضوعِ گفتگو  نہ ہوئے
ہمیشہ بیٹھ کے تاریکیوں کو کوسہ گیا
ہم اک چراغ بنانے میں سرخرو نہ  ہوئے
مجھے تو حیرتیں ہوتی ہیں اپنے یاروں پر
مرے خلاف کبھی اس قدر  عدو نہ ہوئے
تمام شہر میں مشہور تیری بخیہ گری
ہمارے زخم مگر آج تک رفو نہ  ہوئے
درود پڑھ کے دعا کو فلک پہ بھیجا گیا
دعا کے پاؤں کہیں سے لہو لہو نہ  ہوئے
کل اک گناہِ کبیرہ بھی ہو گیا سرزد
ہم اس کو سوچنے بیٹھے تو با وضو نہ ہوئے
ہزار کوششیں کرتے رہے ہیں پھول مگر
کسی طرح ترے چہرے  کے ہو بہو نہ ہوئے
ندیم راجہ

Comments