سنا ہے اس کو سخن کے اصول آتے ہیں

سنا ہے اُس کو سخن کے اصول آتے ہیں
کرے کلام تو باتوں میں پھول آتے  ہیں
سنا ہے سحر میں اُس کے ہیں مبتلا سارے
 جب اس سے ملتے ہیں تو ہوش بھول آتے ہیں
سنا ہے کِھلتے ہیں اُن کے مزاج گل کی طرح
تمہاری بزم میں جو دل ملول آتے  ہیں
سنا ہے اُس کے پڑھانے میں ہے مٹھاس ایسی
بخار ہو بھی تو بچے سکول آتے  ہیں
سنا ہے اُس کی طرف دوڑتی ہے خود منزل
بدن پہ لے کے جو رستے کی دھول آتے  ہیں
بجھا چکا ہوں میں کب کا چراغِ شب مشتاقؔ
ہوا کے جھونکے مرے گھر فضول آتے  ہیں
حبیب الرحمن مشتاق

Comments