Posts

Showing posts from 2018

شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی

پیاس دریا کی نگاہوں سے چھپا رکھی ہے

اب تیری ضرورت بھی بہت کم ہے مری جاں

بادباں کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھنا

بچھڑ کے تجھ سے میسر ہوئے وصال کے دن

عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقدار یہاں

اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے​

تراش کر مرے بازو اڑان چھوڑ گیا

شب وصال میں دوری کا خواب کیوں آیا

تھی جس کی جستجو وہ حقیقت نہیں ملی

آئینے کا سکوت سمندر لگا مجھے

آج کے دن بھی پڑوسی مرے رازق ٹھہرے

آگ ، نظم احمد فراز

Paradox

اعتراف ، گلزار

ہم کبھی عشق کو وحشت نہیں بننے دیتے

تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں ،مرے دل سے بوجھ اتار دو

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

جب اسے عطر کی اک بالٹی سپلائی کی

تجھے خبر ہے تجھے یاد کیوں نہیں کرتے

کیوں خفا ہم سے ہو خطا کیا ہے

فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے

خفا اس سے کیوں تو مری جان ہے

کوئی نہیں تیرا تو مری جان خدا ہے

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

نہ دل کا اذن نہ دلدار کی اجازت ہے

کچھ بھی تھا سچ کے طرف دار ہوا کرتے تھے

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا

جس پہ مرتے ہیں اسے مار کے رکھ دیتے ہیں

ادھر دیکھ لینا ادھر دیکھ لینا

اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے