آج کے دن بھی پڑوسی مرے رازق ٹھہرے

جب ہوئی رائے شماری سبھی صادق ٹھہرے
ایک ہم تھے کہ جو بستی میں منافق ٹھہرے
شہر کے باغ میں ہو جائے ملاقات تو پھر
کون گلیوں میں رکے کون پسِ چق ٹھہرے
آج کے دن بھی مرا رزق نہ مجھ پر اترا
آج کے دن بھی پڑوسی مرے رازِق ٹھہرے
کوئی چاہے کہ نہ چاہے نہیں پروا ان کو
خود ہی معشوق ہوئے خود ہی وہ عاشق ٹھہرے
خواہشِ الفت و شفقت ہوئے ہیں محروم
اِن یتیموں کے لیے کوئی تو مُشفق ٹھہرے
نہ کوئی دِین تھا اس کا، نہ کوئی مذہب تھا
دِلِ مردہ کے لواحق، نہ لواحق ٹھہرے
گردش ِ خوں پہ ہے جب گردشِ دوراں کا اثر
کیوں نہ ساجد تن لاغر میں تپِ دِق ٹھہرے
اقبال ساجد

Comments