شبنم شکیل ، نظم

بیٹھ کر عمر بھر غم کی دھلیز پر
میں نے رشتوں کے ریشم ھی سُلجھائے ھیں
میں نے ھی ظلم کے سارے کانٹے چُنے
راستے میں نے صدیوں کے سیدھے کئے
رنج کتنے سہے دل نے ھر جبر پر
پھر بھی بیٹھی رھی مسندِ صبر پر
دستکِ غیر پر کوئی کھولا نہ دَر
پھر بھی الزام میرے ھی سنگ آئے ھیں
سنگ لوگوں نے مجھ پر ھی برسائے ھیں
اے مِرے محسنو
اے مِرے عادلو
مجھ کو کس جرم کی دے رھے ھو سزا
"شبنم شکیل"

Comments