جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

مر گئے پھر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اُس طرح مُوا حسرتِ دیدار کے ساتھ

شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشمِ مشتاق لگی جائے ہے طیار کے ساتھ

ذکرِ گُل کیا ہے صبا! اب کے خزاں ہیں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ

کس کو ہر دم ہے لہو رونے کاہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدہء خونبار کے ساتھ

میری اُس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ

دیکھیے کس کو شہادت سے سرافراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اُس شوخ کی تلوار کے ساتھ

بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تُو اے بلبل
دم کشِ میر ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ ​

میر تقی میر

Comments