Posts

Showing posts from October, 2018

عشق بت سے بھی تھا خدا مطلب

ﮨﮯ ﺍﺯﻝ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻏﻠﻂ ﺑﺨﺸﯽ ﭘﮧ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﻣﺠﮭﮯ

کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب

بچوں کی طرح وقت بتانے میں لگے ہیں

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا

ہم تم ہوں گے بادل ہوگا

بزم میں ذکر مرا لب پہ وہ لائے تو سہی

یا محمدؐ نور مجسم یا حبیبی یا مولائی​

آنکھوں کو اپنی دیکھ کے مخمور ہوگیا

بے کراں دریا ہوں غم کا اور طغیانی میں ہوں

یارائے گفتگو نہیں آنکھوں میں دم نہیں

تن پہ سلامت ہیں ہاتھ خالی ہیں

نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے

اکتوبر

وہ مری چین جبیں سے غم پنہاں سمجھا

دل مرا خوگر آلام ہوا جاتا ہے

بستیوں کو ترے دیوانے نے ویراں سمجھا

مسلماں دیکھ کر اب دل کی حیرانی نہیں جاتی

کہاں تک جفا حسن والوں کی سہتے

کب اپنی خوشی سے وہ آئے ہوئے ہیں

خبر پہنچے تماشا دیکھنے والے بھی دیکھے جا رہے ہیں

حلال میوہ معنی کو بھی حرام کیا

خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردا کرے کوئی

زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں

وہ نہیں ہوں میں کہ جس پر کوئی اشک بار ہوتا

کسی اہل ہجر کی بد دعا ہے کہ خود سری کا قصور ہے