کیوں کہا یہ کسی سے کیا مطلب

کیوں کہا یہ کِسی سے کیا مطلب
اِسی کہنے سے کُھل گیا مطلب
بات پُوری نہی کہی مَیں نے
کہ وہ طرّار لے اُڑا مطلب
مَیں کہے جاؤں تُم سُنے جاؤ
ایک کے بعد دُوسرا مطلب
ہے مِرا درد آپ کی راحت
ہے مِری یاس آپ کا مطلب
خُون ہونے کو خاک ہونے کو
یا مِرا دِل ہے یا مِرا مطلب
مِٹ گئے ایک ہی تغافُل میں
شوق ارمان مدّعا مطلب
اُن کی جانِب سے پیامِ وصل
ہے نئی چاہ کا نیا مطلب
غیر کا خط بھی چاک کر ڈالا
مِل گیا تھا کُچھ مِرا مطب
باندھ کر خط پرِ کبُوتر پر
لِکھ دیا ہم نے جابجا مطلب
مرگیا مُژدہِ وِصال سے مَیں
یوں بھی نِکلا رقیب کا مطلب
کبھی کہتا ہُوں دِل سے خُوب کِیا
کبھی کہتا ہُوں کیوں کہا مطلب
بےغرض تھے تو لُطفِ صُحبت تھا
دُشمنِ وضع ہوگیا مطلب
بیخودی میں رہا نہ یاد القاب
خط میں پہلے ہی لِکھدیا مطلب
دِل میں گُھٹ گُھٹ کے رہ گئی حسرت
لب پہ آ آ کے رہ گیا مطلب
حضرتِ داغؔ توبہ کرتے ہیں
کاش پُورا کرے خُدا مطلب

داغ دہلوی

Comments