فریحہ نقوی شاعری ،

لاکھ دل نے پکارنا چاہا
میں نے پھر بھی تمہیں نہیں روکا
تم مری وحشتوں کے ساتھی تھے
کوئی آسان تھا تمہیں کھونا؟
تم مرا درد کیا سمجھ پاتے
تم نے تو شعر تک نہیں سمجھا
کیا کسی خواب کی تلافی ہے؟
آنکھ کی دھجیوں کا اڑ جانا
اس سے راحت کشید کر!! دن رات
درد نے مستقل نہیں رہنا
آپ کے مشوروں پہ چلنا ہے؟
اچھا سنیے میں سانس لے لوں کیا؟
خواب میں امرتا یہ کہتی تھی
ان سے کوئی صلہ نہیں بیٹا
دیکھ تیزاب سے جلے چہرے
ہم ہیں ایسے سماج کا حصہ
لڑکھڑانا نہیں مجھے پھر بھی
تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا
وارثان غم و الم ہیں ہم
ہم سلونی کتاب کا قصہ
سن مری بد گماں پری!! سن تو
ہر کوئی بھیڑیا نہیں ہوتا

فریحہ نقوی

Comments