غریبوں کی جو ثروت ہیں ، ضعیفوں کی جو قوت ہیں

غریبوں کی جو ثروت ہیں ، ضعیفوں کی جو قوت ہیں
انہیں عالم کے ہر دکھ کی دوا کہنا ہی پڑتا ہے​
انہیں فرماں روائے انس و جاں کہتے ہی بنتی ہے
انہیں محبوب رب دوسرا کہنا ہی پڑتا ہے​
زہے تاثیر ، ان کا نام نامی جب لیا جائے
لبوں کو لازما صلی علی کہنا ہی پڑتا ہے​
جہاں بھر کو کیا سیراب جن کے فیضِ بے حد نے
انہیں دریائے الطاف و عطا کہنا ہی پڑتا ہے​
کیا بیڑا جنہوں نے پا آکر نوع انساں کا
انہیں انسانیت کا ناخدا کہنا ہی پڑتا ہے​
جنہوں نے بزم امکاں سے مٹائی کفر کی ظلمت
انہیں تنویر حق ، نور الہدیٰ کہنا ہی پڑتا ہے​
از حفیظ تائب

Comments