ان کے در تک رسائی اگر ہوگئی

آپ نے جس طرف بھی بڑھائے قدم
کہکشاں گرد راہ سفر ہوگئی

وہ حسیں لب کھلے اور چمن کھل گئے
وہ نگاہیں اٹھیں اور سحر ہوگئی

آج کیوں درد دل میں‌ ہے اپنی کمی
ہو نہ ہو، ان کو میری خبر ہوگئی

روئے پاک نبی کا تصور ہے کیا
روشنی تا بہ حدِ نظر ہوگئی

اللہ اللہ عروج شہ دوسرا
وسعت آسماں رہگزر ہوگئی

بات جب تھی ، مدینے میں ہوتی بسر
زندگانی کا کیا ہے بسر ہوگئی

کس بلندی پہ اقبال پہنچیں گے ہم
ان کے در تک رسائی اگر ہوگئی

اقبال صفی پوری​

Comments