Posts

Showing posts from November, 2017

شام سے آنکھ میں نمی سی ہے

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 

زیست سے تنگ ہو اے داغؔ تو جیتے کیوں ہو 

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں

ہر کسی کو کب بھلا یوں مُسترد کرتا ہوں میں

زندگی فراڈ ہے، فراڈ سے نبھائے جا

عادتاً ہی , گلزار

وہ ملے تو بے تکلف نہ ملے تو بے ارادہ 

شکوۂ بے جا کی کیا ان سے شکایت ہم کریں 

خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے  , مضطر خیر آبادی

اے مجھے صبر کے آداب سکھانے والے 

یقیں سے دور ، اسیرِ گماں نظر آتے

آسماں ہے، نہ زمیں ہے، نہ خلا، کچھ بھی نہیں

آنسو , اختر شیرانی

بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ​

میں کسی شخص سے بیزار نہیں ہو سکتا 

مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا

ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں

شامِ غم کے سب سہارے ٹوٹ کر 

دہر میں نقشِ وفا وجہِ تسلی نہ ہوا , غالب

زندگی کی راہوں میں رنج و غم کے میلے ہیں , صبا افغانی

لٹا کے راہ محبت میں ہر خوشی میں نے 

منیر نیازی , پروین شاکر غزل

سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ 

ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ

ہوا ہے مہرباں وو مُو کمر آہستہ آہستہ

بڑھے ہے دن بدن تجھ مکھ کی تاب آہستہ آہستہ

کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ , ایک ردیف میں ولی کی چار غزلیں

اب گناہ و ثواب بِکتے ہیں 

تمہاری سالگرہ پر, سالگرہ پہ شاعری

سالگرہ پہ اشعار / شاعری

جاری ہے دو جہاں پہ حکومت رسول ﷺ کی

بُندا , مجید امجد

یہ اور بات تیری گلی میں نہ آئیں ہم 

کچھ اشارے تھے جنہیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم 

عشق یونہی تو نہیں ہے ترے ملتان کے ساتھ

سبو پر جام پر شیشے پہ پیمانے پہ کیا گزری 

صدیوں طویل رات کے زانو سے سر اٹھا

‎خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا، نہ پری رہی

معلُوم ھے جناب کا مطلب کچھ اَور ھے

رکھا ہے دل میں اگر پاس بھی بلاؤ ہمیں 

چھپ کر مرے ارمانوں کو برباد نہ کر 

کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں 

مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے 

منتخب اشعار Muntakhib Ashaar

کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے

نامہ بر اپنا ہواؤں کو بنانے والے

عشق میں نام کر گئے ہو ں گے

یہ جو چَھلکے ہیں، نہیں قطرے مئے گلفام کے

کیا گلہ اس کا جو میرا دل گیا

زھر سے ، الماس سے ، تلوار سے

متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں 

یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ،ھم کیا کریں  , گانا

دل آشفتہ پہ الزام کئی یاد آئے 

کہاں لے جاؤں یہ فریاد مولا

کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں 

تیرے گمنام اگر نام کمانے لگ جائیں

پہنچ سے دُور چمکتا سراب یعنی تُو

جو اپنی زندگانی کو حباب آسا سمجھتے ہیں

یہ دل لگی بھی قیامت کی دل لگی ہو گی

سینہ میں دل ہے دل میں داغ داغ میں سوز و ساز عشق

بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے

تری شان بوترابی،میرا ذوق خاکبازی

رات فلک پر رنگ برنگی آگ کے گولے چُھوٹے

مَوت سے گہرا دُکھ بھی سہنا ہوتا ھے

رُکو تو تم کو بتائیں وہ اتنے نازُک ہیں ,