آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا

آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا
حالانکہ دس برس سے میں اس گھر نہیں گیا
اس نے مذاق میں کہا میں روٹھ جاؤں گی
لیکن مرے وجود سے یہ ڈر نہیں گیا
سانسیں ادھار لے کے گذاری ہے زندگی
حیران وہ بھی تھی کہ میں کیوں مر نہیں گیا
شامِ وداع، لاکھ تسلی کے باوجود
آنکھوں سے اس کی دکھ کا سمندر نہیں گیا
اس گھر کی سیڑھیوں نے صدائیں تو دیں مگر
میں خواب میں رہا کبھی اوپر نہیں گیا
بچوں کے ساتھ آج اُسے دیکھا تو دکھ ہوا
ان میں سے کوئی ایک بھی ماں پر نہیں گیا
پیروں میں نقش ایک ہی دہلیز تھی حسنؔ
اس کے سوا میں اور کسی در نہیں گیا
حسن عباس رضا

Comments