حقیقت دیکھ لیں خود جوڑ کر تصویر کے ٹکڑے

حقیقت دیکھ لیں خود جوڑ کر تصویر کے ٹکڑے
یہ میرے دل کے ٹکڑے ہیں ، یہ اُن کے تیر کے ٹکڑے
دعا کی تھی تو تھوڑی دیر ظالم صبر کرنا تھا
تری آہ و فغاں نے کر دئیے تاثیر کے ٹکڑے
وفا کا ذکر بھی ہے ، بے وفائی کی شکایت بھی
جدا اک دوسرے سے ہیں تری تحریر کے ٹکڑے
وفاؤں کا محل میں نے جتن کر کے بنایا تھا
جفاؤں سے اُڑاۓ تو نے اِس تعمیر کے ٹکڑے
جو خظ میں ، میں نے اپنی غمزدہ تصور بھی بھیجی
اُڑاۓ خط کے پرزے ، کر دئیے تصویر کے ٹکڑے
نہ چُھوٹے اے نصیرؔ! اب آستانِ مُرشدِ کامل
مِلیں مجھ کو اِسی در سے مری تقدیر کے " ٹکڑے"
 پیر سید نصیر الدین نصیر جیلانی

Comments