جان سے بڑھ کے جان جاں تو ہے 

حسن میں آفت جہاں تو ہے 
چال میں خنجر رواں تو ہے 
دونوں ظالم ہیں فرق اتنا ہے 
آسماں پیر ہے جواں تو ہے 
بے کہے دل کا حال روشن ہے 
اے خموشی مری زباں تو ہے 
اپنے گھر میں خیال میں دل میں 
ایک ہو کر کہاں کہاں تو ہے 
دونوں جانب سے پردہ داری ہے 
میں ہوں گمنام بے نشاں تو ہے 
سب سے پیاری ہے جان دنیا میں 
جان سے بڑھ کے جان جاں تو ہے 
آئینے پر نہیں یہ چشم کرم 
اپنی صورت کا قدر داں تو ہے 
کیا برابر کا جوڑ ہے یہ جلیلؔ 
یار نازک ہے ناتواں تو ہے 
جلیل مانکپوری

Comments