اے مجھے صبر کے آداب سکھانے والے 

 کرب کے شہر میں رہ کر نہیں دیکھا تو نے 
کیا گزرتی رہی ہم پر نہیں دیکھا تو نے
کانچ کا جسم لیۓ شہر میں پھرنے والے 
دست ِحالات میں پتھر نہیں دیکھا تو نے
اے مجھے صبر کے آداب سکھانے والے 
جب وہ بچھڑا تھا وہ منظر نہیں دیکھا تو نے
بے کراں کیوں نہ لگیں تجھکو یہ جوہڑ تیرے 
بات یہ ہے کہ سمندر نہیں دیکھا تو نے
جانے والوں کو صدائیں نہیں دیتا میں بھی 
تو بھی مجھ سا ہے کہ مڑ کر نہیں دیکھا تو نے
تو نے دیکھا ہے مقّدر کا ستارہ خاور
پر ستارے کا مقّدر نہیں دیکھا تو نے
خاور زیدی

Comments