ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ

ہٹی زلف ان کے چہرے سے مگر آہستہ آہستہ
عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ
چٹک کر دی صدا غنچہ نے شاخِ گل کی جنبش پر
یہ گلشن ہے ذرا بادِ سحر آہستہ آہستہ
قفس میں دیکھ کر بازو اسیر آپس میں کہتے ہیں
بہارِ گل تک آ جائیں گے پر آہستہ آہستہ
کوئی چھپ جائے گا بیمارِ شامِ ہجر کا مرنا
پہنچ جائے گی ان تک بھی خبر آہستہ آہستہ
غمِ تبدیلی گلشن کہاں تک پھر یہ گلشن ہے
قفس بھی ہو تو بن جاتا ہے گھر آہستہ آہستہ
ہمارے باغباں نے کہہ دیا گلچیں کے شکوے پر
نئے اشجار بھی دیں گے ثمر آہستہ آہستہ
الٰہی کو نسا وقت آگیا بیمارِ فرقت پر
کہ اٹھ کر چل دیے سب چارہ گر آہستہ آہستہ
نہ جانے کیوں نہ آیا ورنہ اب تک کب کا آ جاتا
اگر چلتا وہاں سے نامہ بر آہستہ آہستہ
خفا بھی ہیں ارادہ بھی ہے شاید بات کرنے کا
وہ چل نکلیں ہیں مجھ کو دیکھ کر آہستہ آہستہ
جوانی آگئی دل چھیدنے کی بڑھ گئیں مشقیں
چلانا آگیا تیرِ نظر آہستہ آہستہ
جسے اب دیکھ کر اک جان پڑتی ہے محبت میں
یہی بن جائے گی قاتل نظر آہستہ آہستہ
ابھی تک یاد ہے کل کی شبِ غم اور تنہائی
پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر آہستہ آہستہ
قمر جلالوی

Comments