نہ نِکلےہیں نہ یوں نِکلے تُمہارے تیر کے ٹُکڑے

نہ نِکلےہیں نہ یوں نِکلے تُمہارے تیر کے ٹُکڑے
رکھو سینہ پہ زانُو اور نِکالو چیر کے ٹُکڑے

پئے تسکین دل وہ دے گئے ہیں تیر کے ٹُکڑے
بحمداللہ مِلے مُجھ کو میری تقدیر کے ٹُکڑے

میرے سینے میں دل ہی کا پتہ مِلتا نہیں مُجھ کو
میں اپنے دل کو ڈھونڈوں یا تُمہارے تیر کے ٹُکڑے

یہ فرمایا جو آئے اپنے وحشی کے جنازے پر
بجائے چادرِ گُل ڈال دو زنجیر کے ٹُکڑے

میرا قاصد یہ لایا ہے جواب! اور یہ جواب آیا
کہ لا کر دے دیئے مُجھ کو میری تحریر کے ٹُکڑے

متاعِ وحشتِ دل لے کے اُٹھیں گے قیامت میں
ہمارے ساتھ رکھ دو قبر میں زنجیر کے ٹُکڑے

جگر کو کُچھ مِلا کُچھ دل نے پائے کُچھ رگِ جاں نے
ہوئے تقسیم یُوں القصہ اُن کے تیر کے ٹُکڑے

تبرک ہو گئیں کٹتے ہی ساری بیڑیاں میری
کہ مجنوں لینے آیا نجد سے زنجیر کے ٹُکڑے

دمِ آخر تیرا دیوانہ تڑپا ہے کہ زِنداں میں
پڑے ہیں جا بجا ٹوٹی ہوئی زنجیر کے ٹُکڑے

سراپائے شہیدِ کربلا ہے مُصحفِ ناطق
ہیں بیدمؔ پارۂ قُرآں تنِ شبیرؑ کے ٹُکڑے

 بیدم شاہ وارثیؒ

Comments