دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے

دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنا قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
اے رُوح عصر جاگ ، کہاں سو رہی ہے تو
آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے
اس رینگتی حیات کا کب تک اُٹھائیں بار
بیمار اب اُلجھنے لگے ہیں طبیب سے
ہر گام پر ہے مجمعء عشاق منتظر
مقتل کی راہ ملتی ہے کوئے حبیب سے
اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ
جیسے کوئی نباہ رہا ہو رقیب سے
ساحر لدھیانوی

Comments