دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں

دل کی بساط کیا تھی نگاہِ جمال میں
اک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

صبر آہی جائے گر ہو بسر ایک حال میں
امکاں اک اور ظلم ہے قیدِ محال میں

آزردہ اس قدر ہوں سراب خیال سے
جی چاہتا ہے تم بھی نہ آؤ خیال میں

تنگ آکے توڑتا ہوں طلسمِ خیال کو!
یا مطمئن کرو کہ تمہیں ہو خیال میں!

دنیا ہے خواب،حاصلِ دنیا خیال ہے
انساں خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

بجلی گری اور آنچ نہ آئی کلیم پر
شاید ہنسی بھی آگئی ان کو جلال میں

عمرِ دو روزہ واقعی خواب وخیال تھی
کچھ خواب میں گزر گئی، باقی خیال میں
سیماب اکبر آبادی

Comments