ادھر ہو گیا رخ ، تیرے دیوانے جدھر آئے

ادھر ہو گیا رخ ، تیرے دیوانے جدھر آے
ہوئیں شاداب راہیں ، وجد میں دیوار و در آےٓ
جنوں رستے میں کب رکتا ہے جب وقتِ سفر آئے
کسی کا آستاں گزرے ، کسی کا سنگِ در آئے
تمہیں تو دیکھنا تھا زندگی کی روشنی لے کر
تمہارے بعد کیا دیکھوں ، مجھے اب کیا نظر آئے
زمیں کی تہ سے لے کر آسمانوں کی فصیلوں تک
نظر مجھ کو سب اپنے ہی مقاماتِ نظر آئے
ہمیں نے غیرتِ گلشن کیا ہے صیدگاہوں کو
ہمیں ہیں جو قفس میں آشیانہ پھونک کر آئے
سفر سے کام رکھ ، تو راہِ بے منزل کا رہرو ہے
سحر بے شام ہو جاےٓ کہ شام بے سحر آےٓ
نہ تو کوتاہ بیں ہے ، اور نہ کوئی احتراز اس کو
نظر میں جس کی گنجائش نہ ہو وہ کیا نظر آئے
مصائب میں وطن کی یاد آئی اس طرح جیسے
کوئی دکھتی ہوئی آنکھوں میں خوابِ مختصر آئے
ترا جلوہ ہو اور نظریں نہ اٹھیں آنکھ والوں کی
تیرا کوچہ ہو اور انسان بے ٹھوکر گزر آئے
تعلق کچھ نہ ہو ، اتنا تو رشتہ پھر بھی قائم تھا
ہزاروں بار دل تک ان کے پیغامِ نظر آئے
میں افسانہ محبت کا نہ کہتا ہوں نہ سنتا ہوں
نہ جانے کب دل امڈے ، ہونٹ کانپیں ، آنکھ بھر آئے
نظر کی روشنی تو تیری خلوت تک نہیں پہنچی
جو لو دے جائے دل ، اس وقت کچھ شاید نظر آےٓ
نہ بتخانہ میں گنجائش ، نہ کعبہ میں جگہ خالی
ذرا آواز تو دے ، تیرا دیوانہ کدھر آےٓ
بحمداللہ موت آئی کہ ہم آزردۂ ہستی
کشاکش سے نکل آےٓ ، مصیبت سے گزر آےٓ
خدا حافظ ، بس اب ، اس وقت مجھ کو یاد کر لینا
تمہیں جب اپنے دل میں میری گنجائش نظر آئے
زمانہ چھین کر رہتا ہے دانشؔ ایسے انساں کو
جدا ہونے سے جس کے زندگی دوبھر نظر آئے
احسان دانش

Comments