Posts

Showing posts from September, 2019

شمار سبحہ مرغوب بت مشکل پسند آیا

اداسی میں گھرا تھا دل چراغ شام سے پہلے

ہم عشق کے خمار سے باہر نہیں گئے

اک تو وہ ہم سے بدگمان بھی ہے

یارو نگہ یار کو یاروں سے گلہ ہے​

جو بھی غنچہ تیرے ہونٹوں پر کھلا کرتا ہے

جب درمیاں ہمارے یہ سنگدل زمانہ دیوار چن رہا تھا

اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں

ہم ایسے لوگ کہاں منزلوں کو پاتے ہیں

صنوبروں کی وسعت

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

بجھتے ہوئے چراغ پہ ڈالی ہے روشنی

دعا لپیٹ کے رکھ دیں کلام چھوڑ دیں ہم

زمیں پر شور محشر روز و شب ہوتا ہی رہتا ہے

آپ ہیرا صدف نگیں کیوں ہیں

ورنہ محبت دم گھٹ کر مر سکتی ہے

انجم سلیمی کی نظم

کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے

ملتا نہیں ہے گوہر نام و نشان خاک

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

مانا کہ زندگی سے ہمیں کچھ ملا بھی ہے

کچھ ایسے زخم بھی در پردہ ہم نے کھائے ہیں

یہ مری انا کی شکست ہے نہ دوا کرو نہ دعا کرو​

جانے کیا ڈر دل بے باک میں بیٹھا ہوا ہے

میں چھوٹے لوگوں کو پہلے بڑا بناتا تھا

اہل دل آنکھ جدھر کھولیں گے

شام آئی تو کوئی خوش بدنی یاد آئی

تیری خوشبو کا ہنر کھولیں گے

ہوا تھمی تھی ضرور لیکن

خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہیے

ہر ایک راگ میں ہر راگنی میں شامل ہے

کوئی جیسے منتظر ہو روشنی کے اس طرف

چاہے آغاز اب انجام سے کرنا پڑ جائے

موسم گل پر خزاں کا زور چل جاتا ہے کیوں

اس کا کمال ہے کہ خزاں پر بہار ہے

ہم جو کہنے کو خزاں میں بھی ہرے رہتے ہیں

ﺗﻢ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮨﻨﺲ ﮨﻨﺲ ﮐﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﺮﻭ ﮨﻮ

اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

وہ پارہ ہوں میں جو آگ میں ہوں وہ برق ہوں جو سحاب میں ہوں

کہنے سننے کا سلیقہ ہے جسے جب آ جائے

ایک گائے اور بکری