شام کے مسکن میں ویراں مے کدے کا در کھلا

شام کے مسکن میں ویراں مے کدے کا در کھلا
باب گزری صحبتوں کا خواب کے اندر کھلا



کچھ نہ تھا جز خوابِ وحشت وہ وفا اس عہد کی
راز اتنی دیر کا اس عمر میں آ کر کھلا

بن میں سرگوشی ہوئی آثارِ ابر و باد سے
بندِ غم سے جیسے اک اشجار کا لشکر کھلا

جگمگا اُٹھّا اندھیرے میں مری آہٹ سے وہ
یہ عجب اُس بُت کا میری آنکھ پر جوہر کھلا

سبزۂ نو رستہ کی خوشبو تھی ساحل پر منیر
بادلوں کا رنگ چھتری کی طرح سر پرکھلا

غیروں سے مل کے ہی سہی بے باک تو ہوا
بارے وہ شوخ پہلے سے چالاک تو ہوا

جی خوش ہوا ہے گرتے مکانوں کو دیکھ کر
یہ شہر خوفِ خود سے جگر چاک تو ہوا

یہ تو ہوا کہ آدمی پہنچا ہے ماہ تک
کچھ بھی ہوا وہ واقفِ افلاک تو ہوا

اس کشمکش میں ہم بھی تھکے تو ہیں اے منیر
شہرِ خدا ستم سے مگر پاک تو ہوا
منیر نیازی

Comments