کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے

کہنی ہے ایک بات دل  شاد کام سے
تنگ آگیا ہوں یار ، محبت کے نام سے



میں ہوں کہ مجھ کو دیدہ ء بینا کا روگ ہے
اور لوگ ہیں کہ کام انہیں اپنے کام سے

عشّاق ہیں کہ مرنے کی لزّت سے ہیں نڈھال
شمشیر ہے کہ نکلی نہیں ہے نیام سے

جب اس نے جا کے پہلوئے گل میں نشست کی
باد  صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے

وحشت اک اور ہے مجھے ہجرت سے بھی سوا
ہم خانہ مطمئن نہیں میرے قیام سے

میری تو اور بات ہے وہ خوش نہيں کہ جو
ہم رنگ ہوگئے در و دیوار و بام سے

پانی تھا وہ سو اس کا مقدّر ہوا بنی
میں آگ تھا سو خاک ہوا اہتمام سے

ہر اسم بے طلسم تھا لیکن جمال میں
تارے کو ماہ تاب کیا اس کے نام سے

جمال احسانی

Comments