شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
ساری اُمیدیں ٹوٹ گئیں، دل بیٹھ گیا، جی چھوٹ گیا



فصلِ گل آئی یا اجل آئی، کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا

لیجیے کیا دامن کی خبر اور دستِ جنوں کو کیا کہیے
اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گذری چھوٹ گیا

منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے، کوئی تمنا ساتھ نہ تھی
تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا

اس نے عدو کا سوگ کیا یا اس سے وفا کی آس بندھی
داغِ تمنا، رنگِ حنا کی دیکھا دیکھی چھوٹ گیا

فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن
غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

فانی بدایونی

Comments