یاں حال سے میں بے حال ہوا کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

یاں حال سے میں بے حال ہوا کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں
وہ پوچھنے والا بھول گیا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

دن بھر تو شہر  دل زدگاں اک شہر خموشاں رہتا ہے
راتوں کو مگر آتی ہے صدا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

اک عرصۂ آتش زیر  قدم اور سر پر نزول  بارش  غم
اے میرے خدا یاں تیرے سوا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

کس عہد سے رشتہ توڑ گیا مجھے آج اور کل پر چھوڑ گیا
تو بھی تو آکر دیکھ ذرا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

کیا جشن ہے جشن  تنہائی احوال کے صورت خانے میں
کچھ میری طرف بھی مجھ سے جدا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

اک بام دھنک ، اک شاخ چمک ،اک خواب فضا اور دور تلک
سر گوشی کرتا سنّاٹا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

اک مدّھم سرخی لرزاں سی اک کم کم سایہ گرداں سا
یہ چہرہ چراغ یہ زلف ہوا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

یہ آنکھ کہے وہ انکھ سنے اس دکھ کو نصیر اب کون لکھے
کہاں رنگ کھلا کہاں رنگ بجھا ، کوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں

نصیر ترابی

Comments