اس کا کمال ہے کہ خزاں پر بہار ہے

اس کا کمال ہے کہ خزاں پر بہار ہے
حد نظر تلک جو طلسمی حصار ہے
آگے بھی صبح تک نہیں روشن کوئی سراغ
پیچھے بھی دور دور یہ تاریک غار ہے
جھونکے کہیں سے آتے ہیں تازہ ہواؤں کے
کنج قفس کہیں کوئی راہ فرار ہے
ان آبلوں کو پاؤں سے نسبت ہے دائمی
آگے یہی سفر ہے یہی خار زار ہے
تھا اک شجر بلند جو آندھی میں گر گیا
بستی تمام اس کے لئے سوگوار ہے
بیتابؔ تم فقیر کہاں آ گئے میاں
اس شہر میں اک ایک بشر شہر یار ہے
پرتپال سنگھ بیتاب

Comments