مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

نہ پوچھو اے خضر حرص و ہوا کی
گھٹا کی زندگی، حسرت بڑھا کی
نہ کچھ تیری چلی بادِ صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
نہ پوچھو شوخیوں کو اس کے پا کی
حنا بھی ہاتھ بہتیرا مَلا کی
وہ مجنوں ہوں کھنچی جب کہربا سے
مری تصویر بھی تنکے چنا کی
مرے پر بھی رہی قسمت کی گردش
ہماری خاک کی بھِنگی پھرا کی
وہ سوتے بے حجابانہ رہے رات
نگاہِ شوق کام اپنا کیا کی
بنا کر خاک کا پتلہ کیا خاک
سوارت کی مری مٹی تو کیا کی
کہوں بربادیِ بنتِ عنب کیا
ہمیشہ مے پرستوں میں اُڑا کی
شکستہ خاطر ایسا ہوں مرے، پر
مری خاکِ لحد سے پھوٹ اُگا کی
چڑھا جب نشہ بنگِ خطِ سبز
جنابِ خضر سے گاڑھی چھنا کی



 وصالِ یار سے دونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
وہ تر دامن ہوں میخواروں میں جس کی
ہوائے مے کشی باندھا سوا کی
شادؔ لکھنوی

دیوانِ شاد 
سخنِ بے مثال

Comments