Posts

Showing posts from June, 2019

رفتہ رفتہ منظر شب تاب بھی آ جائیں گے

یہی تسبیح یہی میری ثنا خوانی ہے

چاند جب بام سے کہہ دیتا ہے اللہ حافظ

تم تو چپ رہنے کو بھی رنجش بے جا سمجھے

غیروں کے ظلم کا جو کبھی تذکرہ ہوا

عشق نے کیا کیا رنج سہے، تم کیا جانو

بارہا گور دل جھنکا لایا

شور، احساس کے کاغذ پہ سنائی دے گا

یہ شکل ہو ہی نہیں سکتی شادمانی کی

کھیل میں کچھ تو گڑ بڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ

مہک اٹھا ہے آنگن اس خبر سے

سرو سمن کی شوخ قطاروں کے سائے میں

ہم کبھی شہر محبت جو بسانے لگ جائیں​

چھت سے پنکھے کو اتارا نہ چلایا ہم نے

یہاں کے عہدہ و منصب قبول کرتے ہوئے

جو رشکِ رفعتِ عرشِ بریں ہے

دن ڈھلا اور شام آئی روشنی جاتی رہی

اپنی غلطی کا جب احساس ہوا ہے مجھ کو

جہاں تلک تو مری ذات کا تعلق ہے

نگاہوں کا خسارہ کون دیکھے

سر بلندوں میں سرنگوں آیا

جو لے کے ان کی تمنا کے خواب نکلے گا

جاؤ شیشے کے بدن لے کے کدھر جاؤ گے

اچانک دلربا موسم کا دل آزار ہو جانا

جفا صیاد کی اہل وفا نے رائیگاں کر دی

ملن کی ساعت کو اس طرح سے امر کیا ہے

بے اولاد

یار دل جوئی کی زحمت نہ اٹھائیں جائیں

اکیلے پن کی وحشت سے نکل کر مسکراؤں تو

یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا

کہاں تک رازِ عشق افشا نہ کرتا

ہم بھی نہیں ہوں گے، یہ جہاں بھی نہیں ہو گا

چاہتا ہوں کہ نظر، نور سے مانوس نہ ہو

وہ گیسو فتنۂ جاں ہوں تو دل آباد کیا ہو گا

سفر میں رہنے کا یہ بھی تو اک قرینہ ہے 

اجاڑ بستی کے باسیو ایک دوسرے سے پرے نہ رہنا

تم نے سچ بولنے کی جرات کی

رونے میں اک خطرہ ہے، تالاب، ندی ہو جاتے ہیں

وہ مری دوست وہ ہمدرد وہ غم خوار آنکھیں

سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں

کبھی سڑکیں تو کبھی ریل مسلط کرکے

ﻭﮨﺎﮞ ﻭﮐﯿﻞ ﻗﻄﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻗﻄﺎﺭﮮ ﮔﺌﮯ

مری زمیں پہ جو موسم کبھی نہیں آیا

نہ آسماں سے نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا

کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں

کم سے کم ایک بار بندہ بن

سیم وزر کی کوئی تنویر نہیں چاہتی میں

جز غبار راہ، کچھ پیش نظر رکھا نہیں

غم اگر ساتھ نہ تیرا دے گا

بدلا عدو تو یار بھی اپنا بدل گیا