چاہتا ہوں کہ نظر، نور سے مانوس نہ ہو

چاہتا ہوں کہ نظر، نور سے مانوس نہ ہو
روشنی ہو، مگر اتنی ہو کہ محسوس نہ ہو



  
کیسے کھل پائے، یہ رعشہ ہے کہ بھونچال ؟ اگر
کمرے کی چھت سے لٹکتا ہوا فانوس نہ ہو
زندگی لمبی تو ہو سکتی ہے، بے انت نہیں
خودکشی کی بھی سہولت ہے، تو مایوس نہ ہو
تو دعا کر کہ میں روتا رہوں صحرا نہ بنوں
خاک اور نم کا تناسب کبھی معکوس نہ ہو
جسم کا امن سبوتاژ کئے رکھتی ہے
روح دراصل سماوات کی جاسوس نہ ہو
کوئی آسیب بھی چھیڑے نہ مری تنہائی
ایسا گھر دیکھ جو خالی تو ہو، منحوس نہ ہو
اب یہ زردی بھی بھگتنا تو پڑے گی کچھ دن
میں نہ کہتا تھا ہرے رنگ میں ملبوس نہ ہو
عمیر نجمی

Comments