جی میں سمجھے تھے کہ دکھ درد یہ سب دور ہوئے

جی میں سمجھے تھے کہ دُکھ درد یہ سب دُور ہُوئے
ہم تو اِس کُوچے میں آ اور بھی مجبُور ہُوئے



  
کل جو ہم اشک فشاں اُ س کی گلی سے گُزرے
سینکڑوں نقشِ قدم خانۂ زنبُور ہُوئے
پُھول بادام کے پیارے مُجھے لگتے ہیں، مگر
تیری آنکھوں کے تئیں دیکھ کے مخمُور ہُوئے
دِل پہ از بس کہ پھپولے تَپِ ہِجراں سے پڑے
داغِ دِل جتنے تھے، وہ خوشۂ انگُور ہُوئے
فرطِ اُلفت سے مِری بات بگڑتی ہی رہی
جُوں جُوں چاہا مَیں اُنھیں، اور بھی مغرُور ہُوئے
کھاکے سو نیشِ اَلم آبلۂ دِل میرے
رفتہ رفتہ بَہے اِتنے کہ وہ ناسُور ہُوئے
مُصحفیؔ پڑھ تُو اب اُن کو بھی بَھری مجلِس میں
شعر تُجھ سے، جو کوئی اور بدستُور ہُوئے
غلام ہمدانی مُصحفیؔ

Comments