اک آدھ روٹی کے واسطے کیسے کیسے چکر چلا رہا ہوں

اک آدھ روٹی کے واسطے کیسے کیسے چکر چلا رہا ہوں
مِرے خُدا ! تُو تو جانتا ھے مَیں جس طرح گھر چلا رہا ہوں



تُمہارے پیروں سے جو چُھوئے تھے وہ مَیں نے جیبوں میں بھر لیے تھے
طلائی سِکّوں کی جگہ مَیں آج بھی وہ کنکر چلا رہا ہوں

تُمہی بتاؤ، تمہارے دل پر چلے بھی کیسے مِری محبت ؟
یہ گہرے پانی کی ناؤ ھے اور مَیں سڑک پر چلا رہا ہوں

اِسی لیے تو مِری غزل کی شراب بِکتی ھے بےتحاشا
یہ مَے کدہ مَیں تُمہاری آنکھوں سے مِل مِلا کر چلا رہا ہوں

جمال و ثروت کی شاعری پڑھ کے اور کیا روزگار مِلتا ؟
سو ایم اے اُردو میں اوّل آکر بھی آج اُوبر چلا رہا ہوں

نتیجہ جو بھی ھو جنگ کا لیکن اس حقیقت کی داد تو دو
کہ مَیں قلم کو تمہاری تلوار کے برابر چلا رہا ہوں

تبھی تو ملّاحوں کا قبیلہ ھُوا ھے میرے لہُو کا پیاسا
یہ سارے کشتی چلانے والے ھیں، مَیں سمندر چلا رہا ہوں

یہ لوگ یُوں اپنے مسئلوں کے تمام حل مُجھ سے پُوچھتے ھیں
کہ جیسے مَیں آج کل زمیں پر خُدا کا دفتر چلا رہا ہوں

ھم ایک اُجڑے ھوئے کلیسا میں روز مِلتے ھیں چُھپ چُھپا کر
وہ ایک مندر چلا رھی ھے، مَیں ایک مِنبَر چلا رہا ہوں

مَیں اپنی فہرستِ دوستاں سے جھٹک رھا ھُوں مُنافقوں کو
یہ سارے ناسور خُود ھی پالے تھے، خود ھی نشتر چلا رہا ہوں

مُجھے محبت کی سلطنت ورثے میں نہیں، جنگ سے مِلی ھے، 
سو مَیں اِسے پچھلے بادشاھوں سے کافی بہتر چلا رہا ہوں

نہ مَیں پیمبر نہ یہ پیمبر نہ کوئی حُکمِ خدا ھے، فارس !
مَیں بُھوک کے دُکھ سے اپنے بیٹے پہ آپ خنجر چلا رہا ہوں

رحمان فارس

Comments