سخن میں حسن کی خوشبو اتار پھول بنا

سخن میں حسن کی خوشبو اتار، پھول بنا
ہنر گنوا نہ مرے دستکار، پھول بنا

نجانے کب ہو تری حاضری وہاں اے دوست
یہاں شمار نہ کر بے شمار، پھول بنا

فقط جبیں پہ ریاکاریوں کے پھول نہ کاڑھ
زمین_دل پہ تہجد گزار، پھول بنا

میں اس کی سنتا نہیں تھا، سو خالی ہاتھ آیا
وہ مجھ سے کہتا رہا بار بار، پھول بنا

یہ زندگی ھے ترے گھر میں چار دن مہمان
سو اس کے واسطے اے یار چار، پھول بنا

پڑی ہے کیا تجھے اس کی وہ سوچتا کیا ھے
تو اپنی سوچ کا چہرہ نکھار، پھول بنا

چلی تھی کیا میرے ہمراہ ایک سبز پری
زمیں پہ گھاس اگی، خار خار پھول بنا.
ممتاز گورمانی

Comments