شور، احساس کے کاغذ پہ سنائی دے گا

شور، احساس کے کاغذ پہ سُنائی دے گا
میرے ہر لفظ میں مفہوُم دِکھائی دے گا
شہر سے کِس لئے جاتا ہے توُ صحرا کی طرف
آ، مِرے دل میں تجھے دَشت دِکھائی دے گا
راس آئے گا نہ تجھ کو کبھی سُورج کا سفر
وہ اندھیرا ہے کہ رَستہ نہ سُجھائی دے گا
میں چراغِ رہِ منزل ہُوں، بُجھاؤ نہ مجھے
بُجھ گیا میں، تو ہر اِک شخص دُہائی دے گا
میں تو احساس کے زِنداں میں مُقیّد ہُوں زماںؔ
میری سوچوں سے مجھے کون رہائی دے گا
زمان کنجاہی

Comments