سر بلندوں میں سرنگوں آیا

سربلندوں میں سرنِگوں آیا
میں اگر آیا بھی تو یوں آیا
کوئی آواز ہی نہیں دیتا
کس کی آواز پر کہوں، آیا

ہے یہاں کوئی پوچھنے والا
میں یہاں کیسے اور کیوں آیا
آہ بھر کر میں ہو گیا خالی
رو لیا ہے تو کچھ سکوں آیا



  
اتنی شدت سے کس نے یاد کِیا
ہچکی آنے سے منہ میں خوں آیا
ریت سے ناؤ بھر گئی میری
موج میں دشتِ نیلگوں آیا
رونا کس بات کا عزا دارو 
یوں گیا اور بس میں یوں آیا
دوست پُھنکارتا ہُوا انجمؔ 
آستیں سے مِرے دروں آیا

انجم سلیمی

Comments