سائے میں آبلوں کی جلن اور بڑھ گئی

سائے میں آبلوں کی جلن اور بڑھ گئی 
تھک کر جو بیٹھے ہم تو تھکن اور بڑھ گئی



  
کل اس قدر تھا حبس ہمارے مکان میں 
سنکی ہوا ذرا تو گھٹن اور بڑھ گئی
کانٹوں کی گفتگو سے خلش دل میں کم نہ تھی 
پھولوں کے تذکرے سے چبھن اور بڑھ گئی
یہ باغباں ہمارے لہو کا کمال ہے 
نیرنگیِ بہار چمن اور بڑھ گئی
یہ ہجر کی ہے آگ مزاج اس کا اور ہے 
اشکوں سے شعلگیٔ بدن اور بڑھ گئی
سیراب کر سکا نہ اسے میرا خون بھی 
کچھ تشنگئ دار و رسن اور بڑھ گئی
حرف سپاس پیش کیا جب بھی وہ ملا 
لیکن جبیں پہ اس کی شکن اور بڑھ گئی
تحریر کی جو ایک غزل اس کے نام پر 
اعجازؔ آبروئے سخن اور بڑھ گئی

اعجاز رحمانی

Comments