Posts

Showing posts from March, 2019

وسیم بریلوی شعر

مٹی کے ہم بنے ہیں اسی خاکداں کے ہیں

ساتھ دریا کے ہم بھی جائیں کیا

گریہ کناں یہ منظر بینائی چاہتا ہے

سب نے مجھ ہی کو در بدر دیکھا

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چرا کر آنکھیں

بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں

یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا

اس رنج سے عشاق نے چھوڑا ہے سمندر

ہم ایک شہر میں جب سانس لے رہے ہوں گے

کاسہ عقل عشق سے بھر دے

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

تم وحشی ہو تم قاتل ہو

اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے

ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے

مجھ سے اک روز تجھے پیار بھی ہو سکتا ہے

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

بہت دنوں کی بات ہے

آئے گا کوئی چل کے خزاں سے بہار میں

اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا

میں نے چاہا تو نہیں تھا کہ کبھی ایسا ہو

پلٹ کے آئے تو سب سے پہلے تجھے ملیں گے

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

میری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں

اتنے مختلف کیوں ہیں فیصلوں کے پیمانے

یہ کائنات صراحی تھی جام آنکھیں تھیں

کرب تعبیر تو آنکھوں میں ٹھہر جائے گا

حضور عشق حکایت نہیں پہاڑا ہے

رت اور طرح کی ہے ہوا اور طرح کی

کھڑکھڑائیں تعلق کی بیساکھیاں چند ماتھوں پہ مہتاب ٹانکے گئے

کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تو

یہ دل عشق میں ڈھائی سو واری ٹوٹا ہے

مری آنکھ سے ترا غم چھلک تو نہیں گیا

نہیں ہے وجہ ضروری کہ جب ہو تب مر جائیں

میں نہ اپنوں سے نہ غیروں سے بہت بدظن ہوں

جو ان دنوں آپ کی زباں بولتا ہے صاحب

تری دیوار سے اونچی نہیں ہے

پیادے بھیج کے اعلان کردیا جائے

بول تو میری جان کس لیے ہے

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

رونق کوچہ و بازار ہیں تیری آنکھیں