مست آنکھوں کی قسم کھانے کا موسم آ گیا

مست آنکھوں کی قسم کھانے کا موسم آ گیا
جام کو شیشے سے ٹکرانے کا موسم آ گیا
عصمِ کعبہ کو ٹھکرانے کا موسم آ گیا
آ گیا پی کر بہک جانے کا موسم آ گیا
پھر گھٹا چھائی ، بہک جانے کا موسم آ گیا
جام کا ، شیشے کا ، پیمانے کا موسم آ گیا
یہ فضا ، یہ چاندنی راتیں ، یہ دورِ جام و مۓ
مستیوں میں غرق ہو جانے کا موسم آ گیا
ہو رہی ہیں جمع اک مرکز پہ دل کی وحشتیں
ہمنشیں! شاید بہاراں آنے کا موسم آ گیا
مسکراتا ہے کوئی چھپ چھپ کے دل کی آڑ میں
حسرتوں کے رقص فرمانے کا موسم آ گیا
رفتہ رفتہ واقعاتِ درد یاد آنے لگے
چپکے چپکے اشک برسانے کا موسم آ گیا

فنا نظامی کانپوری

Comments