کھڑکھڑائیں تعلق کی بیساکھیاں چند ماتھوں پہ مہتاب ٹانکے گئے

کھڑکھڑائیں تعلّق کی بیساکھیاں، چند ماتھوں پہ مہتاب ٹانکے گئے
آخری صف میں بیٹھے ہووں کی کہو، کب اٹھایا گیا، اور ہانکے گئے
شمع دانِ غزل سے بھڑکتی ہوئی، بٙلّی ماراں میں کوئی حویلی نہیں
گومتی کے کنارے اندھیرا ہوا، مرثیہ سن کے مجلس سے بانکے گئے
چِق اٹھائی تو دنیا کے بازار میں، خواہشوں کی نجاست کا انبار تھا
ہم نے بجتا ہوا ہر کٹورہ سنا، اور کھڑکی سے چپ چاپ جھانکے گئے
زرد سکّوں کا صندوق کھلتا رہا، باٹ چڑھتے رہے، مال تلتا رہا
چار جانب سے بولی بڑھائی گئی، شعر بیچے گئے، لفظ آنکے گئے
شاہ شانوں پہ رکّھے ہوئے تخت پر، دیوتا کی سماجت میں مصروف تھا
بد دعائیں اگلتے ہوئے بد زباں، آہ بھرتے رہے، دھول پھانکے گئے
آخری بستیوں کی کہانی سنو، سرخ اینٹوں کی بھٹّی بجھائی گی
پھول ریتی کے نیچے دبائے گئے، چاہ مٹّی کے ٹیلوں سے ڈھانکے گئے
جاں کنی کی اذیت میں غم خوار کیا، ایک مرتے ہوئے کو عزادار کیا
کب لحد میں کہیں شمع رکّھی گئی، کیا کفن میں کبھی پھول ٹانکے گئے

احمد جہاں گیر

Comments