جذبے کسی ٹکسال میں ڈھالے نہیں جاتے

جذبے کسی ٹکسال میں ڈھالے نہیں جاتے
سِکّے یہ ہواؤں میں اُچھالے نہیں جاتے
پلکوں کی مُنڈیروں پہ اُتر آتے ہیں چُپ چاپ
غم ایسے پرندے ہیں جو پالے نہیں جاتے
لوگوں کی تو فریاد پہنچتی ہے فلک پر
تُجھ تک مری آہیں  مرے نالے نہیں جاتے
جب تھا تو بہت پُختہ تھا اِک شخص سے رشتہ
ٹُوٹا ہے تو  اب ٹُکڑے سنبھالے نہیں جاتے
کچھ لوگوں کی ہر دور میں پڑتی ہے ضرورت
کچھ لوگ  کبھی دِل سے نِکالے نہیں جاتے
اب تک تری ذُز دیدہ نِگاہی کے ہیں چرچے
اب تک  تری آنکھوں کے حوالے نہیں جاتے
کیوں چاند کو پڑتی ہے بناوٹ کی ضرورت
کیوں چاند کے اطراف سے  حالے نہیں جاتے
جس دِن سے نگاہوں پہ ترا رستہ کھلا ہے
اُس دِن سے مرے پیروں کے چھالے نہیں جاتے
اب تک وہی منظر ہے سر ِ راہ ِ تمنّا
تاریکی میں ہمراہ  اُجالے نہیں جاتے
لوگوں نے تو لکھ ، لکھ کے سیہ کر دیۓ دفتر
ہم سے تو  یہ دو شعر نِکالے نہیں جاتے
مُحمد سلیم طاہر

Comments