کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تو

کیسا طویل ہجر تھا پھر بھی گیا نہیں ہے تو
مجھ سے الگ سہی مگر مجھ سے جدا نہیں ہے تو
تو مری کائنات میں مجھ پہ گزرتا وقت ہے
چاہے مرے سوا بھی ہو میرے سوا نہیں ہے تو
یہ کوئی اور پیار تھا وہ کوئی اور عشق ہے
تو مری جان ہے مگر میرا خدا نہیں ہے تو
بھید کبھی نہ کھل سکے تجھ پہ قدیم شہر کے
ہو کے گزر گیا مگر مجھ میں رہا نہیں ہے تو
پھر وہی اک سوال ہے' میرا عجیب حال ہے
تو کبھی تھا بھی یا نہیں ? خواب ہے یا نہیں ہے تو
خون میں جو فشار ہے ' کیا کوئی پہلی بار ہے ?
پاؤں پسار ! موج کر ! ' دل میں نیا نہیں ہے تو
سارے وصال یافتہ ہجر کنندگاں میں ہیں
جن کو بھی مل گیا یہاں ان کو ملا نہیں ہے تو
تو مرے اور عشق کے بیچ کہاں سے آگیا
ہے تو ضرور تُو یہاں پر بخدا نہیں ہے تو
نقش کھرچ کے رکھ دئیے وقت کی تیز دھار نے
بات تو دکھ کی ہے مگر مجھ میں بچا نہیں ہے تو

(سعود عثمانی)

Comments