سب جیت کر بھی مات سے آگے نہیں گیا

سب جیت کر بھی مات سے آگے نہیں گیا
وہ شخص میری ذات سے آگے نہیں گیا

نا ممکنات ہی سے ھے آغازِ زندگی
اور دل تو ممکنات سے آگے نہیں گیا

ٹھہرا ہے وقت آج بھی بچھڑے تھے ہم جہاں
اک پل بھی غم کی رات سے آگے نہیں گیا

عمروں کا انتظار جو آنکھوں میں بھر گیا
دو چار پل کے ساتھ سے آگے نہیں گیا

غم ہجر کا بھی ہے اسے شوقِ وصال بھی
انساں غم ِ حیات سے آگے نہیں گیا

دل پہ لگے یہ زخم سبھی دوستوں کے ہیں
دشمن تو صرف گھات سے آگے نہیں گیا

حرص و ہوس کی آگ میں جل کر فنا ہوا
سو عشق معجزات سے آگے نہیں  گیا

ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے جانا تھا چاند پر
افسوس چاند رات سے آگے نہیں گیا

ان مشکلوں کے پار تھا خوشیوں کا اک جہاں
فوزی وہ مشکلات سے آگے نہیں گیا

فوزیہ شیخ

Comments