جو ان دنوں آپ کی زباں بولتا ہے صاحب

جو ان دنوں آپ کی زباں بولتا ہے صاحب
کبھی مری ہاں میں ہاں ملاتا رہا ہے صاحب
اسے تو پہلے بھی لوٹنے والے لوٹتے تھے
یہ دل تو لٹنے کے واسطے ہی بنا ہے صاحب
بدلنے کا میں نہیں کہوں گا مگر بتا دوں
بچھڑنے کا فیصلہ غلط فیصلہ ہے صاحب
سنا ہے دانش وروں میں ہیں آپ یہ بتائیں
کہ جانے والے کو کس طرح روکنا ہے صاحب
مشاہدے اور تجربے سے ہوا ہے ثابت
ادھیڑ عمری کا عشق لے بیٹھتا ہے صاحب
مری کہانی اگر لکھی ہے تو یہ بتائیں
مری کہانی میں میرا کردار کیا ہے صاحب
بڑی سہولت سے جیت لے گا وہ جنگ مجھ سے
مرے عدو کو یہ وہم سا ہو گیا ہے صاحب
مقابلے پر کوئی بڑا آدمی نہیں تھا
اسی لیے جیت کر برا لگ رہا ہے صاحب
کہا گیا تھا نیا سفر پُر سکون ہو گا
وہی اذیت، وہی تھکن، کیا نیا ہے صاحب
یہ آپ بھی جانتے ہیں اندر سے کتنا خوش تھا
جو قصہ گو اور لطیفہ گو اٹھ گیا ہے صاحب
اسی نے ہی آپ کو بٹھایا تھا اپنے سر پر
یہ جرم تیمور سے ہی سر زد ہو ہے صاحب
تیمور حسن

Comments